تین جذباتی کیفیات ہیں جو خاص طور سے ذہن پر اثر انداز ہوکر اسے بیمار بنادیتی ہیں۔ پہلی کیفیت وہ دباؤ ہے جس پر آپ کا کوئی بس نہ ہو‘ دوسری کیفیت تنہائی اور تیسری کیفیت وہ ہے جس میں آپ اپنے جذبات کو دبائے رہیں اور ان کے اظہار سے کترائیں۔
زینب فاطمہ‘ لاہور
اگر کوئی شخص طویل عرصے تک دباؤ‘ پستی‘ مصائب اور جذباتی ہیجان کا سامنا کرتا رہے تو سب سے زیادہ اثر اس کی قوت مدافعت پر پڑتا ہے اور اس کے مدافعتی خلیوں کی تعداد اور فعالیت بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔
سائنسی تحقیقات کے مطابق جو لوگ پستی (ڈیپریشن) کا شکار ہوجاتے ہیں‘ الگ تھلگ رہتے ہیں اور سماجی محرومیوں کی زد میں رہتے ہیں‘وہ نسبتاً جلد سرطان کے قابو میں آجاتے ہیں جب کہ وہ لوگ جو خوش رہتے ہیں‘ مالی طور پر آسودہ ہوتے ہیں اور انہیں عزیزوں دوستوں کی طرف سے بھی تقویت حاصل رہتی ہے اس مرض کے قابو میں مشکل سے آتے ہیں۔
ایک برطانوی مصنفہ جنہوں نے سرطان کے تدارک پر ایک کتاب لکھی ہے‘ اس بات کی قائل ہیں کہ سرطان کے تدارک کیلئے ہمارا رویہ ایسا ہونا چاہیے جس میں جسم اور دماغ دونوں کی صحت شامل ہو۔ مطلب یہ کہ انسان مختلف اعضاء اور کیمیائی مادوں سے بنی ہوئی کوئی مشین نہیں ہے جو ایک ڈھرے پرچلتی رہتی ہے بلکہ انسان کی زندگی میں جہاں جسم کی اہمیت ہے وہاں جذباتی اور روحانی معاملات بھی یکساں اہم ہیں۔ جسم‘ دماغ اور روح میں جو باہمی تعلق ہے وہ ہماری صحت اور تندرستی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر غذا ہمارے جسم و ذہن دونوں ہی کے لیے مفید یا مضر ہے۔ ورزش سے جسم اور دماغ دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور مراقبہ نہ صرف ذہنی سکون فراہم کرتا ہے بلکہ یہ دل کی تقویت‘ سانس کی بہتری اور مدافعتی نظام کیلئے بھی اہم ہے اور اس سے مزاجی کیفیت پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔
زیادہ تر لوگ اپنے طرز زندگی میں اس وقت تبدیلی کرتے ہیں جب یہ تشخیص ہوجاتی ہے کہ وہ سرطان کے مریض ہیں۔ اکثر لوگ اس وقت کہتے ہیں کہ کاش! اپنے طرز زندگی کی اصلاح انہوں نے پہلے کرلی ہوتی۔ مصنفہ کی رائے میں ایک شخص جتنا خوش رہے گا اتنا ہی اس کیلئے سرطان کا امکان کم ہوگا۔
خوشی کا انحصار بہت حد تک جسمانی صحت پر بھی ہے۔ آپ اپنے جسم کی غذا اور صحت کا کتنا خیال رکھتے ہیں‘ ذہنی آسودگی پر کتنی توجہ دیتے ہیں اور روحانی تقاضوں کو کس حد تک پوراکرتے ہیں‘ یہ تینوں باتیں مجموعی طور پر آپ کی صحت کی ضامن اور پھر آپ کی خوشی کا باعث ہوں گی۔
تین جذباتی کیفیات ہیں جو خاص طور سے ذہن پر اثر انداز ہوکر اسے بیمار بنادیتی ہیں۔ پہلی کیفیت وہ دباؤ ہے جس پر آپ کا کوئی بس نہ ہو‘ دوسری کیفیت تنہائی اور تیسری کیفیت وہ ہے جس میں آپ اپنے جذبات کو دبائے رہیں اور ان کے اظہار سے کترائیں۔ یہ تین جذباتی عوامل ہماری کارکردگی کو بُری طرح متاثر کرتے ہیں۔
اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ پستی اور تنہائی کے شکار افراد پر سرطان کا وار خوب چلتا ہے۔ مصنفہ کا اندازہ یہ ہے کہ سرطان کے مریضوں میں 47 فیصد افراد انہوں نےا یسے دیکھے جو واضح طور پر پستی کے مریض تھے لیکن جب انہیں اس عذاب سے چھٹکارا دلانے کی کوشش کی گئی اور انہیں اپنے جذبات کے اظہار کا موقع فراہم کیا گیا تو ان کے مرض سرطان میں بھی افاقے کے آثار پیدا ہوگئے۔
سرطان کا خطرہ کم کرنے کیلئے لوگوں کو مثبت سوچ کی ضرورت ہے اور انہیں اپنے بارے میں پراعتماد رہنا چاہیے۔ گاہے بگاہے اپنی زندگی کا جائزہ لیتے رہیں اور یہ دیکھیں کہ انہوں نے زندگی میں کیا کھویا اور کیا پایا۔ نیز یہ کہ ایک کامیاب زندگی گزارنے اور خوش رہنے کیلئے آپ کو اپنے طرز زندگی میں کیا تبدیلی لانی چاہیے۔ اگر آپ کو کوئی مشکل پیش آئے تو بہتر ہوگا کہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے علاوہ کسی ماہر سے بھی مشورہ کرلیں۔ دل کا حال کہہ دینے اور جذبات کا اظہار کردینے سے بڑا فرق پڑجاتا ہے۔
صحت بخش غذا کھائیے:چوکر والی غذا اور قدرتی طریقوں سے کاشت کی ہوئی غذا جس میں پھل‘ سبزیاں‘ دلیے‘ دالیں اور پھلیاں زیادہ ہوں جب کہ شکر‘ نمک‘ چکنائی‘ گوشت‘ دودھ سے بنی اشیاء‘ الکحل اور بازار کے تیار شدہ کھانے کم ہوں۔ کافی اور چائے کے بجائے پانی اور نباتاتی چائے پیجئے لیکن اپنے طرز زندگی میں تبدیلی کرتے وقت یہ خیال رکھیے کہ اتنی تبدیلی کی جائے جسے نبھایا جاسکے اور جو دیرپا ہو۔
تمباکو نوشی ترک کردیجئے:تمباکو کا استعمال کسی بھی شکل میں ہو‘ ترک کیجئے اور ایسے مقویات سے تیار کی ہوئی اشیا کھائیے جو مانع سرطان ہیں مثلاً حیاتین ج‘ حیاتین د‘ حیاتین ھ اور بیٹاکیروٹین۔ ان کے علاوہ جست اور سیلینیم بھی استعمال کیجئے۔
ورزش بھی کرتے رہیے:اندازہ ہے کہ جو عورتیں ورزش کرتی ہیں ان کیلئے چھاتی کےسرطان اور ڈیپریشن کا خطرہ دس سے بیس فیصد کم ہوجاتا ہے۔ یوگا جیسی مشرقی ورزشیں اس لحاظ سے بہت خوب ہیں کہ ان سے ہر ٹشو‘ ہر عضو کی ورزش ہوتی ہے اور جسم کے تمام اعضا کو خون کی فراہمی صحیح طریقے سے ہوتی ہے اور توانائی حاصل ہوتی رہتی ہے۔
دباؤ کو کم کرنے اور بچنے کی کوشش کیجئے:زندگی میں سادگی پیدا کیجئے‘ زیادہ بکھیڑے نہیں ہوں گے تو ذہنی سکون حاصل ہوگا‘ لیکن اگر دباؤ زیادہ ہو تو کسی ماہر سے مشہور کیجئے۔ روحانی علاج کی طرف توجہ دیجئے۔ کام سے چند ہفتے کی چھٹی لیجئے اور آرام کیجئے۔ یاد رکھیے کہ کافی عرصہ کام کرنے کے بعد کچھ دن آرام کرنا جسمانی اور ذہنی صحت کیلئے ضروری ہے۔ دباؤ سے بچنے کیلئے سکون و آرام‘ مالش اور ورزش کا پروگرام ترتیب دیجئے۔
ذہنی سکون کیلئے مراقبہ:اس سے مزاجی کیفیت پر اچھا اثر پڑتا ہے اور یہ ایک طرح کا روحانی علاج بھی ہے۔ قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کیجئے۔ بعض لوگوں کیلئے دباؤ کم کرنے اور سکون حاصل کرنے کیلئے مراقبہ سے بہتر کوئی چیز نہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں